میرا نام جمیشید جگوال ہے، میں مظفرآباد، جموں و کشمیر کے حسین علاقے تحصیل پٹہکہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ یہ پہاڑوں اور دریاؤں کی وادی نہ صرف قدرتی حسن میں اپنی مثال آپ ہے بلکہ یہاں کے لوگ اپنی مہمان نوازی، محبت، روایات اور تہذیب کی وجہ سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ اسی سرزمین نے مجھے پہچان دی، اسی نے سچائی تلاش کرنے کی ہمت دی اور امن و انصاف کی قدر سکھائی۔

جموں و کشمیر کا مسئلہ – حقیقت کو سمجھنا، ذمہ داری کو نبھانا

میرے نزدیک جموں و کشمیر کا مسئلہ جذبات یا طاقت کے ذریعے کبھی حل نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک تاریخی اور سیاسی مسئلہ ہے جسے صرف صبر، حکمت، دلیل اور باہمی احترام کے ساتھ سلجھایا جا سکتا ہے۔ میں کشمیری عوام کے حقِ خودمختاری کے اصول کا احترام کرتا ہوں لیکن شدت پسندی، نفرت یا تشدد کی ہر شکل کو صاف الفاظ میں رد کرتا ہوں۔ میرا ماننا ہے کہ حقیقی تبدیلی ہمیشہ امن سے آتی ہے، لڑائی سے نہیں۔

غیر جانبداری – آزاد سوچ کی طاقت

میں نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوں اور نہ ہی کسی آزادی پسند تحریک یا الحاق پسند گروپ کا حصہ ہوں۔ میں اپنی بات صرف تحقیق، حقائق اور دلیل پر رکھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ معاشرے کی اصل طاقت دلیل، علم اور باہمی احترام میں ہے۔ ایک باشعور قوم وہی ہے جو ہر رائے کو سننے اور سمجھنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔

تاریخ کا زخم – چھپائی گئی پہچان

۱۹۴۷ کے بعد ہماری ریاست تین حصوں میں بانٹ دی گئی۔ اس تقسیم نے نہ صرف زمین چھینی بلکہ تاریخ بھی مسخ کی۔ ہماری ثقافت، ہماری شناخت، ہماری زبان — سب کو سیاسی کھیل میں کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔ افسوس یہ ہے کہ نئی نسل کو وہ حقائق کبھی صحیح طور پر نہیں دکھائے گئے جن سے وہ اپنی اصل پہچان پہچان سکیں۔ کئی لوگ اپنی زمین کو کبھی پاکستان، کبھی بھارت کے تناظر میں دیکھتے رہے، لیکن اپنی بنیادی شناخت سے ناواقف رہے۔

میرا ذاتی سفر – سوچ بدلنے کی کہانی

میں خود بھی ایک وقت میں اپنی ریاست کو دوسرے ملکوں کے تناظر سے دیکھتا تھا۔ لیکن کتابوں، تحقیق اور سچائی کی تلاش نے میری آنکھیں کھول دیں۔ جب میں نے اپنی تاریخ پڑھی، حقائق کو پرکھا، مختلف زاویوں سے سوچا، تو اندازہ ہوا کہ ہم کس قدر غلط فہمی میں جی رہے تھے۔ مجھے یقین ہو گیا کہ آزادی کا پہلا قدم اپنی حقیقت کو پہچاننا ہے۔

نوجوانوں کے لیے میرا پیغام

میری دل کی خواہش ہے کہ جموں و کشمیر کا ہر نوجوان اپنی تاریخ خود پڑھے، اپنی سرزمین کی حقیقت سمجھے اور اپنی رائے تحقیق کی بنیاد پر بنائے۔ آزادی صرف زمین کی نہیں، سوچ کی بھی ہوتی ہے۔ سوال کرنا، تحقیق کرنا اور دلیل کے ساتھ بات کرنا ہی وہ راستہ ہے جو قوم کو جگاتا ہے۔ کسی بیانیے کے غلام نہ بنیے — اپنی آنکھوں سے دیکھیں، دل سے محسوس کریں اور دماغ سے فیصلہ کریں۔

اختلاف رائے – سیکھنے کا دروازہ

ہر انسان کو اپنی رائے رکھنے اور کہنے کا حق حاصل ہے۔ اختلاف رائے دشمنی نہیں، سیکھنے کا موقع ہے۔ ایک باشعور معاشرہ وہ ہے جہاں مختلف نظریات برداشت کیے جائیں اور سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ جب تک ہم اختلاف رائے کو عزت نہیں دیں گے، ہم ترقی نہیں کر سکتے۔

شدت پسندی کے خلاف میرا واضح مؤقف

میں شدت پسندی اور تشدد کو صرف نقصان دہ نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف سمجھتا ہوں۔ تشدد راستے بند کرتا ہے، امن نئے دروازے کھولتا ہے۔ ہمیں اپنی بات دلیل، وقار اور احترام کے ساتھ رکھنی چاہیے اور دوسروں کی بات سننی بھی چاہیے۔ یہی رویہ ہمیں ایک پُرامن اور بہتر مستقبل کی طرف لے جا سکتا ہے۔

علم اور شعور – اصل طاقت

میں ہمیشہ اس بات پر زور دیتا ہوں کہ قوموں کی اصل طاقت ہتھیاروں میں نہیں، علم اور شعور میں ہے۔ برسوں ہم نے جذبات کے سہارے فیصلے کیے اور نقصان اٹھایا۔ اب وقت ہے کہ ہم دانشمندی، تحقیق اور انصاف کے ساتھ اپنے راستے طے کریں۔ یہی راستہ عزت، پہچان اور پائیدار انصاف کا ضامن ہے۔

میرا خواب – ایک پرامن، خوددار کشمیر

میرا خواب ہے کہ ایک دن جموں و کشمیر کے لوگ اپنی سرزمین پر عزت اور سکون کے ساتھ چل سکیں۔ ہم اپنی تاریخ پر فخر کر سکیں، اپنی ثقافت کو محفوظ رکھ سکیں اور دنیا کو دکھا سکیں کہ ہم نے نفرت کے بجائے محبت، اندھیرے کے بجائے روشنی، اور جھوٹ کے بجائے سچ کا انتخاب کیا۔ میں چاہتا ہوں کہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں یاد کریں کہ ہم نے عقل، علم اور انسانیت کو سیاست پر ترجیح دی۔

میرا پیغام – انسانیت سب سے پہلے

میں کسی ملک یا قوم کے خلاف نہیں ہوں۔ میرا مقصد صرف اتنا ہے کہ کشمیری عوام کو وہ عزت، حق اور پہچان ملے جس کے وہ حقدار ہیں۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ یہ مسئلہ صرف انصاف، صبر اور سیاسی حکمت سے ہی حل ہو سکتا ہے — تشدد اور نفرت سے نہیں۔

jamshaid jagwal official logo and dp

میں ریاست جموں و کشمیر کا شہری ہوں جو اپنی سرزمین کی خودمختاری اور عوام کے حقِ خودارادیت کو اپنا ایمان سمجھتا ہے۔
کتاب سادہ رہے گی کب تک؟ کبھی تو آغازِ باب ہو گا
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی، کبھی تو ان کا حساب ہو گا
وہ دن گئے جب کہ ہر ستم کو ادائے محبوب کہہ کے چپ تھے
اٹھی جو اب ہم پہ اینٹ کوئی، تو اس کا پتھر جواب ہو گا
سحر کی خوشیاں منانے والو، سحر کے تیور بتا رہے ہیں
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی کہ سانس لینا عذاب ہو گا
سکوتِ صحرا میں بسنے والو، ذرا رُتوں کا مزاج سمجھو
جو آج کا دن سکوں سے گزرا، تو کل کا موسم خراب ہو گا
نہیں کہ یہ صرف شاعری ہے، غزل میں تاریخِ بے حسی ہے
جو آج شعروں میں کہہ دیا ہے، وہ کل شریکِ نصاب ہو گا